موصوف کا مختصراً تعارف
آپ کا اسم گرامی ہارون رشيد، والد محترم کا نام ابوبکر اور کنبہ یعنی خاندان کا نام بنگالی اور تخلص رشید ہے . آپ کی پیدائش جنوبی ہند کی ریاست کرناٹکا کے ضلع کاروار کے شہر بھٹکل کی ایک مشہور و معروف بستی تینگن گنڈی میں مؤرخہ 7/مئی سنہ 1972 عیسوی میں ہوئی . پیدائش کے وقت آپ کے گھرانہ کے افراد کی عصری تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہ تھی ، البتہ آپ کے پانچ بھائیوں میں سے ایک بھائی جناب حافظ بشیر صاحب اپنی حفظ کی تکمیل کے بعد اپنی ہی بستی کے عربی مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے جس کی وجہ سے ان کا میلان تعلیم کی طرف بہ نسبت دوسرے بھائیوں کے زیادہ تھا ، لہذا انھوں نے والدین کے مشورہ سے سب سے چھوٹے دونوں بھائیوں کو اپنی ہی بستی کے سرکاری اسکول میں داخلہ کا ارادہ کیا اور پانچ سال کی عمر میں موصوف کا داخلہ بستی کے گورنمنٹ ہائیر پرائمری اردو َاسکول تینگن گنڈی میں کروایا جہاں آپ نے چھٹی جماعت تک کی تعلیم حاصل کی اور میٹرک یعنی ثانوی تعلیم کے لئے اپنا داخلہ شہر بھٹکل کے اسلامیہ اینگلو أردو ہائی اسکول میں کروایا تو موصوف اپنی ذہانت وقابلیت کی وجہ سے چار سالہ تعلیم کے دوران اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اساتذہ کا دل جیتتے رہے ، البتہ ایک مرتبہ بعض وجوہات کی بنا پر دوران تعلیم اپنے تعلیمی سلسلہ کو منقطع بھی کر دیا تھا اور اپنے چچا زاد بھائی جناب میکانک حسین بنگالی کے ساتھ میکانک کا کام بھی انجام دیا تھا ، بعد ازاں از خود ہائی اسکول کی تعلیم کو جاری رکھا جس کے لئے بستی میں سرکاری ملازمت کرنے والے رائچور کےجناب شیخ یاسین صاحب کا تعاون رہا ، جس کے بعد آپ نے مسلسل اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا اور اپنی ناخدا برادری سطح پر پہلی مرتبہ انجمن اینگلو اردو ہائی اسکول میں “رنراپ وقار اسلامیہ ” کا وہ ایوارڈ حاصل کیا جو اسکولی سطح پر آٹھویں نویں اور دسویں جماعت میں بہترین کارکردگی پیش کرنے والے طالب علم کو دیا جاتا ہے . اس کے بعد آپ نے دسویں کے بورڈ امتحانات میں امتیازی کامیابی حاصل کی .
بعد ازاں آپ نے پی یو (PU) کی تعلیم کے لئے اپنا داخلہ پی یو کالج بھٹکل کے شعبۂ سائنس میں کروایا اور اس کے فائنل امتحانات میں امتیازی کامیابی حاصل کی ، پھر انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے اپنا داخلہ انجنئیرنگ کالج بھٹکل کے شعبۂ الکٹرانک اینڈ کمیونیکیشن میں لیا اور وہیں پر اپنی ڈگری کی تکمیل کی .
انجینئرنگ کے بعد موصوف اصلاحی ، فلاحی اور تعلیمی میدان میں قوم کی ترقی کے لئے اپنی بساط بھر سعی وجد جہد کرتے رہے اس دوران انھوں نے نوجوانوں کی اصلاح و تعمیر کی غرض سے ایک چھوٹے سے ادارہ کی بنیاد ” بزم اصلاح وتربیت ” کے نام سے رکھی جس میں ہفتہ واری اجتماعات میں قرآن وحدیث کے دروس کی تعلیم دی جاتی تاکہ نوجوانوں کی فکری وذہنی اور دینی ودعوتی نہج پر تربیت کی جا سکے اور معاشرہ کے ماحول وفضا کو خوشگوار بنایا جا سکے ، لیکن یہ ادارہ ایک دہائی کے اندر ہی خاطر خواہ توجہ نہ ہونے سے ترقی کی راہ پر گامزن نہ رہ پایا .
اس کے علاوہ آپ نے جامعہ آباد ، ہیبلے ، بھٹکل میں چھوٹے بچوں کے ابتدائی تعلیمی معیار کو مستحکم ومضبوط بنانے کے لئے اپنے انجنیئر نگ کی تعلیم کے دوران “ہدیٰ نرسری” کے نام سے اس دور میں ایک نرسری اسکول کی بنیاد رکھی جس میں مرکزی جماعت المسلمین تینگن گنڈی سے منسلک چند انگلیوں پر گنے چنے طلباء و طالبات کے علاوہ کوئی بھی دسویں کے فائنل امتحانات میں کامیاب نہ ہو پاتا تھا ، لہذا وہ اس جدید طرز کے نرسری اسکول کے نئی نسل پر پڑنے والے بہترین تعلیمی اثرات کو بھانپ چکے تھے اور اس حقیقت کا اعتراف آج بھی قوم کے بعض مفکرین ودانشوران کو ہے ، لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ ابتدائی تعلیم کا بہترین مرکز بعض ناموافق وناساز گار حالات کے پیش نظر بدرجۂ مجبوری بادل ناخواستہ بند کرنا پڑا حالانکہ اس کے بہترین نتائج سامنے آرہے تھے اور بعد میں اس مکتب سے نکلنے والے تقریباً تمام طلباء و طالبات نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی تو کچھ نے حفظ قرآن کے بعد بھی پوسٹ گریجویشن مکمل کیا ، جیسے حماد بن شبیر ڈانگی ، حذیفہ بن جعفری بنگالی اور عبدالماجد بن ابراہیم چاؤس وغیرہ لیکن مشیت الہی کے سامنے انسانی فیصلوں کی کوئی بساط نہیں ہوتی .
اس کے چند سالوں بعد سنہ 2003 ء میں موصوف ازدواجی زندگی سے منسلک ہوگئے تو انھیں اپنے کسب معاش کی فکر بھی دامنگیر تھی یہی وجہ تھی کہ انھوں نے انجینئرنگ کالج بھٹکل میں اپنی تدریسی خدمات انجام دینے کا فیصلہ لیا اور کئی سالوں تک وہاں پر اپنی خدمات بھی انجام دیتے رہے .
چونکہ موصوف قوم کی ایک ذہین وباصلاحیت شخصیت تھی جس کے نتیجہ میں ان کی آراء حالات کے تناظر میں اپنی خاص اہمیت کی حامل ہوتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ قوم کے ذمہ داران نے ان کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے ان کا نام مرکزی جماعت المسلمین تینگن اور مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن تینگن کے عہدیداران وممبران میں شامل کرنا شروع کر دیا تو موصوف بھی تن من سے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر قومی خدمات انجام دینے لگے اور چند ہی سالوں کے قلیل عرصہ میں اپنے وطنی اداروں کے عہدوں پر بحیثیت صدر و سکریٹری فائز ہوتے رہے . اس دوران جب وہ مرکزی جماعت المسلمین تینگن گنڈی کے صدر و سکریٹری کے عہدوں پر فائز تھے تو انھوں نے اپنی انتھک کوششوں اور دور اندیشی کے ذریعہ جماعت المسلمین تینگن گنڈی میں مختلف تصفیوں کے لئے پیش کردہ عرضیوں اور آپسی تنازعاتی رنجشوں وناچاقیوں پر مشتمل مقدمات کے تقریباً ستر سے زائد فیصلوں کا تصفیہ چند ہی سالوں میں فرما کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا .
اسی طرح موصوف ایک ہی دہائی کے اندر قوم میں اتنے مشہور ومعروف ہوگئے کہ قوم نے انھیں سنہ 1998 ء میں اپنے سب سے بڑے قومی ادارہ ” ناخدا مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن ” کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا ، جس کے بعد ایک طرف موصوف کے سامنے قومی درپیش مشکلات کو حل کرنے کا وہ چیلینج سامنے کھڑا تھا جسکا سامنا کرنے کی ذمہ داری قومی ادارہ نے باقاعدہ طور پر موصوف اور ان کے ساتھ ایک اور باوقار قومی سیاسی شخصیت محترم جناب علی بن آدم ابو صاحب عرف ” ابو علی ” کو سونپی تھی جس میں انھیں قومی ادارہ سے منسلک مختلف جماعتوں میں پائی جانے والی ناچاقی ونااتفاقی کو دور کر کے از سر نو انھیں ادارہ سے مربوط کر کے قومی اتحادی بنیادوں کو مستحکم ومضبوط بنانا تھا ، الحمد للہ موصوف اور ان کے ساتھی نے اس بیڑے کو اٹھایا اور سبھی جماعتوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگئے ، خصوصاً ساوتھ کینیرا میں شیرور کی ناخدا جماعتوں کو .
اسی کے ساتھ ساتھ موصوف دوسری طرف قومی سطح پر تعلیمی پسماندگی کو بھی دور کرنا چاہتے تھے ، لیکن اس کے لئے تن من دھن کی قربانی بھی بہت ضروری تھی ، لہذا موصوف نے اس کے لئے کمر کس لی اور مختلف میٹنگیں منعقد کر کے تمام جماعتوں کے ذمہ داروں کی ذہن سازی کی جس کے نتیجہ میں تمام جماعتوں کے مشترکہ تعاون سے تعلیمی ایوارڈ کا سلسلہ سب سے پہلے موصوف نے ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کی قیادت میں جاری وساری کیا . ولله الحمد والشكر علی ذالك .
واضح رہے کہ موصوف کی شخصیت مختلف صفات کی حامل ہے ، آپ سے لوگوں کے بڑے اچھے روابط ہیں یہی وجہ تھی کہ آپ مجلسِ اصلاح وتنظیم بھٹکل میں بھی بطور نمائندہ مرکزی جماعت المسلمین تینگن گنڈی شرکت فرماتے رہے . علاوہ ازیں موصوف ایس آئی او آف انڈیا کے سابق ریاست کرناٹک ، زونل ایڈوائزری کونسل کے ممبر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں . نیز جماعت اسلامی ہند کے ایک فعال رکن بھی ہیں .
پھر مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ موصوف کو بعض درپیش حالات وموانع کے مدنظر انجینئرنگ کالج بھٹکل کی تدریسی خدمات سے سبکدوش ہونا پڑا اور اسی طرح موصوف ایک سال تک بلا ملازمت اپنی زندگی گذارتے رہے ، پھر اسی سال آپ اپنے پہلے ہی انٹرویو میں سعودیہ کالج کے لئے بطور لیکچرار منتخب ہوئے اور جامعہ ملک خالد ابھا میں سنہ 2011 ء سے اپنی تدریسی خدمات انجام دینے لگے ، دراصل یہ سب کچھ موصوف کی دین سے وابستگی اور ان کے محبین وغرباء کی دعاؤوں کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے مزاج کے مطابق ایک ایسا بہترین علمی گہوارہ عطا کیا جس کی آغوش میں رہتے ہوئے آپ نے وہ علمی کارنامہ انجام دیا جو قوم کے لئے باعثِ عز افتخار ہے .
الحمد للہ موصوف اس ادارہ سے سنہ2011 ء تا 2024 ء تک منسلک رہے اور اپنی تدریسی وتحقيقی خدمات انجام دیتے رہے جن پر انھیں یونیورسٹی کی طرف سے وقتاً فوقتاً تہنیت بھی کی جاتی رہی ، یونیورسٹی کا تعارف انٹرنیٹ پر موجود ہے جہاں ہم ادارہ کے مقام ومرتبہ کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں . ڈسمبر سنہ 2023 ء میں آپ نے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری ” انا ملائی ” یونیورسٹی تملناڈ سے حاصل کی . اس طرح آپ ڈاکٹر ہارون بنگالی سے پہچانے جانے لگے .
خلاصۂِ کلام یہ کہ موصوف قوم کی ایک با اخلاق ، ملنسار . غمگسار ، نرم گفتار ، فراخ دل ، خوش مزاج ، چاق وچوبند ، ذہین وفطین ، دور اندیش ، صاحب الرأی ، صاحب بیان ، ذو علم ، باصلاحیت ، قومی فکر کی حامل اور ان جیسی گوناگوں صفات حمیدہ سے متصف ایک مایۂ ناز وقابل افتخار شخصیت ہے .
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انھیں ہمیشہ قوم کی ایک باعزت و قابل فخر شخصیت بنائے رکھے ، حاسدین کے حسد سے محفوظ رکھے اور ان سے خوب دینی و قومی خدمات لیتا رہے . آمین .